یہ ماتم وقت کی گھڑی ہے

 ٹھہر گئی آسماں کی ندیا

وہ جا لگی ہے افق کنارے

اداس رنگوں کی چاند نیا

اتر گئے ساحل زمیں پر

سبھی کھویا

تمام تارے

اکھڑ گئی سانس پتیوں کی

چلی گئیں اونگھ میں ہوائیں

گجر بجا حکم خامشی کا

تو چپ میں گم ہو گئیں صدائیں

سحر کی گوری کی چھاتیوں سے

ڈھلک گئی تیرگی کی چادر

اور اس بجائے

بکھر گئے اس کے تن بدن پر

نراس تنہائیوں کے سائے

اور اس کو کچھ بھی خبر نہیں ہے

کسی کو کچھ بھی خبر نہیں ہے

کسی کو کچھ بھی خبر نہیں ہے

کہ دن ڈھلے شہر سے نکل کر

کدھر کو جانے کا رخ کیا تھا

نہ کوئی جادہ، نہ کوئی منزل

کسی مسافر کو

اب دماغ سفر نہیں ہے

یہ وقت زنجیر روز و شب کی

کہیں سے ٹوٹی ہوئی کڑی ہے

یہ ماتم وقت کی گھڑی ہے

یہ وقت آئے تو بے ارادہ

کبھی کبھی میں بھی دیکھتا ہوں

اتار کر ذات کا لبادہ

کہیں سیاہی ملامتوں کی

کہیں پہ گل بوٹے الفتوں کے

کہیں لکیریں ہیں آنسوؤں کی

کہیں پہ خون جگر کے دھبے

یہ چاک ہے پنجۂ عدو کا

یہ مہر ہے یار مہرباں کی

یہ لعل لب ہائے مہوشاں کے

یہ مرحمت شیخ بد زباں کی

یہ جامۂ روز و شب گزیدہ

مجھے یہ پیراہن دریدہ

عزیز بھی، نا پسند بھی ہے

کبھی یہ فرمان جوش وحشت

کہ نوچ کر اس کو پھینک ڈالو

کبھی یہ اصرار حرف الفت

کہ چوم کر پھر گلے لگا لو

Posts created 921

Related Posts

Begin typing your search term above and press enter to search. Press ESC to cancel.

Back To Top