کوئی دن گر زندگانی اور ہے

اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے

آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں

سوزِ غم ہائے نہانی اور ہے

بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں

پر کچھ اب کے  سر گرانی اور ہے

دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر

کچھ تو پیغامِ زبانی اور ہے

قاطعِ اعمار ہیں اکثر نجوم

وہ بلائے آسمانی اور ہے

ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام

ایک مرگِ ناگہانی اور ہے