میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا

 

میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا

میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا

قرعۂ فال مرے نام کا اکثر نکلا

تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے

میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا

میں نے اس جان بہاراں کو بہت یاد کیا

جب کوئی پھول مری شاخ ہنر پر نکلا

شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر

میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا

تو یہیں ہار گیا ہے مرے بزدل دشمن

مجھ سے تنہا کے مقابل ترا لشکر نکلا

میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فرازؔ

ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا

Posts created 921

Related Posts

Begin typing your search term above and press enter to search. Press ESC to cancel.

Back To Top