میرے ملنے والے

 وہ در کھلا میرے غم کدے کا

وہ آ گئے میرے ملنے والے

وہ آ گئی شام اپنی راہوں میں

فرش افسردگی بچھانے

وہ آ گئی رات چاند تاروں کو

اپنی آزردگی سنانے

وہ صبح آئی دمکتے نشتر سے

یاد کے زخم کو منانے

وہ دوپہر آئی، آستیں میں

چھپائے شعلوں کے تازیانے

یہ آئے سب میرے ملنے والے

کہ جن سے دن رات واسطا ہے

پہ کون کب آیا، کب گیا ہے

نگاہ و دل کو خبر کہاں ہے

خیال سوئے وطن رواں ہے

سمندروں کی ایال تھامے

ہزار وہم و گماں سنبھالے

کئی طرح کے سوال تھامے

Posts created 921

Related Posts

Begin typing your search term above and press enter to search. Press ESC to cancel.

Back To Top