در امید کے دریوزہ گر

در امید کے دریوزہ گر

 پھر پھریرے بن کے میرے تن بدن کی دھجیاں

شہر کے دیوار و در کو رنگ پہنانے لگیں

پھر کف آلودہ زبانیں مدح و ذم کی قمچیاں

میرے ذہن و گوش کے زخموں پہ برسانے لگیں

پھر نکل آئے ہوسناکوں کے رقصاں طائفے

دردمند عشق پر ٹھٹھے لگانے کے لیے

پھر دہل کرنے لگے تشہیر اخلاص و وفا

کشتۂ صدق و صفا کا دل جلانے کے لیے

ہم کہ ہیں کب سے در امید کے دریوزہ گر

یہ گھڑی گزری تو پھر دست طلب پھیلائیں گے

کوچہ و بازار سے پھر چن کے ریزہ ریزہ خواب

ہم یونہی پہلے کی صورت جوڑنے لگ جائیں گے

Posts created 921

Related Posts

Begin typing your search term above and press enter to search. Press ESC to cancel.

Back To Top