لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی
اچّھا ہے سر انگشتِ حنائی کا تصوّر
دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی
کیوں ڈرتے ہو عشّاق کی بے حوصلگی سے
یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی
اے بے خبراں! میرے لبِ زخمِ جگر پر
بخیہ جسے کہتے ہو شکایت ہے رفو کی
گو زندگیِ زاہدِ بے چارہ عبث ہے
اتنا تو ہے، رہتی تو ہے تدبیر وضو کی
دشنے نے کبھی منہ نہ لگایا ہو جگر کو
خنجر نے کبھی بات نہ پوچھی ہو گلو کی
صد حیف وہ نا کام کہ اک عمر سے غالبؔ
حسرت میں رہے ایک بتِ عربدہ جو کی