ایک دن یوں خزاں آ گئی

 

ایک دن یوں خزاں آ گئی

اور پھر ایک دن یوں خزاں آ گئی

آبنوسی تنوں کے برہنہ شجر

سرنگوں صف بہ صف پیش دیوار و در

اور چاروں طرف ان کے بکھرے ہوئے

زرد پتے دلوں کے سر رہ گزر

جس نے چاہا وہ گزرا انہیں روند کر

اور کسی نے ذرا سی فغاں بھی نہ کی

ان کی شاخوں سے خوابوں کے سب نغمہ گر

جن کی آواز گردن کا پھندا بنی

اپنے نغموں سے جب ناشنا ہو گئے

آپ ہی آپ سب خاک میں آ گرے

اور صیاد نے گماں بھی نہ کی

اے خدائے بہاراں ذرا رحم کر

ان کی مردہ رگوں کو نمو بخش دے

ان کے تشنہ دلوں کو لہو بخش دے

کوئی اک پیڑ پھر لہلہانے لگے

کوئی اک نغمہ گر چہچہانے لگے

Posts created 921

Related Posts

Begin typing your search term above and press enter to search. Press ESC to cancel.

Back To Top