رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی

Poet:Parveen Shakir
 رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی
 رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی

سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی

خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے

زخمی تھا بہت پاؤں مسافت بھی بہت تھی

سب دوست مرے منتظر پردۂ شب تھے

دن میں تو سفر کرنے میں دقت بھی بہت تھی

بارش کی دعاؤں میں نمی آنکھ کی مل جائے

جذبے کی کبھی اتنی رفاقت بھی بہت تھی

کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے

اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی

پھولوں کا بکھرنا تو مقدر ہی تھا لیکن

کچھ اس میں ہواؤں کی سیاست بھی بہت تھی

وہ بھی سر مقتل ہے کہ سچ جس کا تھا شاہد

اور واقف احوال عدالت بھی بہت تھی

اس ترک رفاقت پہ پریشاں تو ہوں لیکن

اب تک کے ترے ساتھ پہ حیرت بھی بہت تھی

خوش آئے تجھے شہر منافق کی امیری

ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی

پروین شاکر

Posts created 786

Related Posts

Begin typing your search term above and press enter to search. Press ESC to cancel.

Back To Top