آواز کے ہمراہ سراپا بھی تو دیکھوں
آواز کے ہمراہ سراپا بھی تو دیکھوں
او جانِ سخن !میں ترا چہرا بھی تو دیکھوں
دستک تو کچھ ایسی ہے کہ دل چھونے لگی ہے
اس حبس میں بارش کا یہ جھونکا بھی تو دیکھوں
صحرا کی طرح رہتے ہوئے تھک گئیں آنکھیں
دُکھ کہنا ہے،اب میں کوئی دریا بھی تو دیکھوں
یہ کیا کہ وہ جب چاہے مجھے چھین لے مجھ سے
اپنے لئے وہ شخص تڑپنا بھی تو دیکھوں
اب تک تو مرے شعر حوالہ رہے تیرا
میں اب تری رسوائی کا چرچا بھی تو دیکھوں
اب تک جو سراب آئے تھے، انجانے میں آئے
پہچانے ہُوئے رستوں کا دھوکا بھی تو دیکھوں
پروین شاکر