وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا


 وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
 وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا


ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا

کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا


وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے

ایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا


وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے

موسم گل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا


آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی

تیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا


مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث

جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا

پروین شاکر

Posts created 786

Related Posts

Begin typing your search term above and press enter to search. Press ESC to cancel.

Back To Top