یاد ہے شادی میں بھی ہنگامۂ یا رب مجھے
یاد ہے شادی میں بھی ہنگامۂ یا رب مجھے
سبحۂ زاہد ہوا ہے خندہ زیر لب مجھے
ہے کشاد خاطر وابستہ در رہن سخن
تھا طلسم قفل ابجد خانۂ مکتب مجھے
یا رب اس آشفتگی کی داد کس سے چاہیے
رشک آسائش پہ ہے زندانیوں کی اب مجھے
طبع ہے مشتاق لذت ہاۓ حسرت کیا کروں
آرزو سے ہے شکست آرزو مطلب مجھے
دل لگا کر آپ بھی غالبؔ مجھی سے ہو گئے
عشق سے آتے تھے مانع میرزا صاحب مجھے