کچھ پہلے ان آنکھوں آگے کیا کیا نہ نظارا گزرے تھا

 کچھ پہلے ان آنکھوں آگے کیا کیا نہ نظارا گزرے تھا 
 کچھ پہلے ان آنکھوں آگے کیا کیا نہ نظارا گزرے تھا 

کیا روشن ہو جاتی تھی گلی جب یار ہمارا گزرے تھا 

تھے کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے غم سے فرصت تھی 

سب پوچھیں تھے احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا 

اب کے خزاں ایسی ٹھہری وہ سارے زمانے بھول گئے 

جب موسم گل ہر پھیرے میں آ آ کے دوبارا گزرے تھا 

تھی یاروں کی بہتات تو ہم اغیار سے بھی بیزار نہ تھے 

جب مل بیٹھے تو دشمن کا بھی ساتھ گوارا گزرے تھا 

اب تو ہاتھ سجھائی نہ دیوے لیکن اب سے پہلے تو 

آنکھ اٹھتے ہی ایک نظر میں عالم سارا گزرے تھا

Posts created 786

Related Posts

Begin typing your search term above and press enter to search. Press ESC to cancel.

Back To Top