شفق کی راکھ میں جل بجھ گیا ستارۂ شام
شفق کی راکھ میں جل بجھ گیا ستارۂ شام
شب فراق کے گیسو فضا میں لہرائے
کوئی پکارو کہ اک عمر ہونے آئی ہے
فلک کو قافلۂ روز و شام ٹھہرائے
یہ ضد ہے یاد حریفان بادہ پیما کی
کہ شب کو چاند نہ نکلے نہ دن کو ابر آئے
صبا نے پھر در زنداں پہ آ کے دی دستک
سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے