یہاں سے شہر کو دیکھو

 یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ

کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل

ہر ایک راہ گزر گردش اسیراں ہے

نہ سنگ میل نہ منزل نہ مخلصی کہ سبیل

جو کوئی تیز چلے رہ تو پوچھتا ہے خیال

کہ ٹوکنے کوئی للکار کیوں نہیں آئی

جو کوئی ہاتھ ہلائے تو وہم کو ہے سوال

کوئی چھنک کوئی جھنکار کیوں نہیں آئی

یہاں سے شہر کو دیکھو تو ساری خلقت میں

نہ کوئی صاحب تمکیں نہ کوئی والئ ہوش

ہر ایک مرد جواں مجرم رسن بہ گلو

ہر اک حسینۂ رعنا، کنیز حلقہ بگوش

جو سائے دور چراغوں کے گرد لرزاں ہیں

نہ جانے محفل غم ہے کہ بزم جام و سبو

جو رنگ ہر در و دیوار پر پریشاں ہیں

یہاں سے کچھ نہیں کھلتا یہ پھول ہیں کہ لہو

Posts created 786

Related Posts

Begin typing your search term above and press enter to search. Press ESC to cancel.

Back To Top