کچھ دیر کو تجھ سے کٹ گئی تھی
کچھ دیر کو تجھ سے کٹ گئی تھی
محور سے زمین ہٹ گئی تھی
تجھ کو بھی نہ مل سکی مکمل
میں اتنے دکھوں میں بٹ گئی تھی
شاید کہ ہمیں سنوار دیتی
جو شب آ کر پلٹ گئی تھی
رستہ تھا وہی پہ بِن تمہارے
میں گرد میں کیسی اَٹ گئی تھی
پت جھڑ کی گھڑی تھی اور شجر تھے
اک بیل عجب لپٹ گئی تھی
پروین شاکر