وہ اجنبی سے چہرے وہ خواب خیمے رواں رواں سے

 وہ اجنبی سے چہرے وہ خواب خیمے رواں رواں سے
 وہ اجنبی سے چہرے وہ خواب خیمے رواں رواں سے

بسے ہوۓ ہیں ابھی نظر میں سبھی مناظر دھواں دھواں سے


یہ عکس داغ شکست پیماں وہ رنگ زخم خلوص یاراں

میں غمگساروں میں سوچتا ہوں کہ بات چھیڑوں کہاں کہاں سے؟


یہ سنگریزے عداوتوں کے وہ آبگینے سخاوتوں کے

دل مسافر قبول کر لے، ملا ہے جو کچھ جہاں جہاں سے


بچھڑنے والے بچھڑ چلا تھا تو نسبتیں بھی گنوا کے جاتا

ترے لیے شہر بھر میں اب بھی میں زخم کھاؤں زباں زباں سے


مری محبت کے واہموں سے پرے تھا تیرا وجود ورنہ

جہاں جہاں تیرا عکس ٹھہرا میں ہو کے آیا وہاں وہاں سے


تو ہمنفس ہے نہ ہمسفر ہے کسے خبر ہے کہ تو کدھر ہے؟

میں دستکیں دے کے پوچھ بیٹھا مکیں مکیں سے مکاں مکاں سے


ابھی محبت کا اسم اعظم لبوں پہ رہنے دے جان محسن!

ابھی ہے چاہت نئی نئی سی، ابھی ہیں جذبے جواں جواں سے

محسن نقوی

Posts created 786

Related Posts

Begin typing your search term above and press enter to search. Press ESC to cancel.

Back To Top