شفق کی راکھ میں جل بجھ گیا ستارۂ شام

 شفق کی راکھ میں جل بجھ گیا ستارۂ شام 
 شفق کی راکھ میں جل بجھ گیا ستارۂ شام 

شب فراق کے گیسو فضا میں لہرائے 

کوئی پکارو کہ اک عمر ہونے آئی ہے 

فلک کو قافلۂ روز و شام ٹھہرائے 

یہ ضد ہے یاد حریفان بادہ پیما کی 

کہ شب کو چاند نہ نکلے نہ دن کو ابر آئے 

صبا نے پھر در زنداں پہ آ کے دی دستک 

سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے

Posts created 786

Related Posts

Begin typing your search term above and press enter to search. Press ESC to cancel.

Back To Top