شب خمار شوق ساقی رستخیز اندازہ تھا
شب خمار شوق ساقی رستخیز اندازہ تھا
تامحیط بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا
یک قدم وحشت سے درس دفتر امکاں کھلا
جادہ اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا
مانع وحشت خرامی ہائے لیلیٰ کون ہے
خانۂ مجنون صحراگرد بے دروازہ تھا
پوچھ مت رسوائی انداز استغنائے حسن
دست مرہون حنا رخسار رہن غازہ تھا
نالۂ دل نے دیے اوراق لخت دل بہ باد
یادگار نالہ اک دیوان بے شیرازہ تھا
ہوں چراغان ہوس جوں کاغذ آتش زدہ
داغ گرم کوشش ایجاد داغ تازہ تھا
بے نوائی تر صداۓ نغمۂ شہرت اسدؔ
بوریا یک نیستاں عالم بلند آوازہ تھا