” درد مِنت کشِ دوا نہ ہوا
” درد مِنت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
” غالب
میری کاوش
جس میں اخلاص کا مزا نہ ہوا
وہ تعلق بھی دیر پا نہ ہوا
وہ کبھی دوست ہونہیں سکتا
جو کبھی تم سے گر خفا نہ ہوا
شدتِ غم سے دل رکا ایسے
پھردھڑکنےکاحوصلہ نہ ہوا
میرا قد اور ہو گیا اونچا
کھینچنے والوں سےگلا نہ ہوا
ڈھونڈتےہو اسے بتوں میں کیا
ہاتھ جو آئے وہ خدا نہ ہوا
یوں تو دنیا میں ہیں بہت شاعر
تجھ سا غالب غزل سرا نہ ہوا
مرزا غالب