خوُشی کا غم ہے نہ غم کی کوئی خوُشی اب تو!
خوُشی کا غم ہے نہ غم کی کوئی خوُشی اب تو!
بہت اُداس گُزرتی ہے زندگی اب تو!
تِرے بغیر بھی دل کی تسلیوں کے لیے!
اِک اِنتظار کی شب تھی، سو ڈھل چُکی اب تو
اِک آشنا کے بچھڑنے سے کیا نہیں بدلا؟
ہَوائے شہر بھی لگتی ہے اجنبی اب تو
تمام رات رہی دل میں روشنی کی لکیر!
مثالِ شمعِ سَحر، وہ بھی جَل بُجھی اب تو
چَلی تھی جن سے یہاں رسمِ خوُدنگہداری
اُنہیں عزیز ہُوا ذکرِ خوُدکشی اب تو
کہاں گئے وہ شناسا وہ اجنبی چہرے!
اُجاڑ سی نظر آتی ہے ہر گلی اب تو
محسن نقوی