جُز غُبارِ راہ، کچھ پیشِ نظر رکھا نہیں
جُز غُبارِ راہ، کچھ پیشِ نظر رکھا نہیں
ہم نے اپنے ساتھ اسبابِ سفر رکھا نہیں
ایک کُوزہ، اِک عَصا، اِک خرقہء گِل کے سِوا
ہم فقیروں نے کِسی نعمت کو گھر رکھا نہیں
ایک بار اُس نے مِرے عیبوں پہ پردہ رکھ لیا
اِس رعایت کو مگر بارِ دگر رکھا نہیں
رات تھے گھر پر چراغ اور عِطر اُس کے مُنتظر
پاؤں تک لیکن ہَوا نے بام پر رکھا نہیں
جنگلوں میں شام اُتری، خوُن میں ذاتِ قدیم
دل نے اُس کے بعد انہونی کا ڈر رکھا نہیں
پروین شاکر