بس ایک شخص کا ہی طلب گار ہو گیا

 بس ایک شخص کا ہی طلب گار ہو گیا
 بس ایک شخص کا ہی طلب گار ہو گیا

آخر یہ دل بھی صاحبِ کردار ہو گیا


جب سے لگایا تم سے کسی کام کا نہیں

جی لٹ کے میرا اور بھی جی دار ہو گیا


کتنی کرید تھی کہ قیامت ہے کیا بلا

اچھا ہوا کہ آپ کا دیدار ہو گیا


آغاز کو خبر نہ تھی انجام ہو گا یہ

بن کچھ کئے یہ بندہ خطا وار ہو گیا


آگے کا خواب دوستو تھا اور بھی حسیں

اس ڈر سے ڈر کے بیچ میں بیدار ہو گیا


تھیں منزلیں ہزار نگاہوں کے سامنے

تیرا خیال راہ کی دیوار ہو گیا


اپنا تو سر جھکا تھا یہ تعظیم کے لئے

کم ظرف یہ زمانہ تو سرکار ہو گیا


فقرہ تھا آخری یہ کہانی کا دل نشیں

پھر یوں ہوا کہ غم مرا غم خوار ہو گیا


ابرک، اسی میں ڈر سے نہیں مانگتا اسے

کیا ہو گا گر وہاں سے بھی انکار ہو گیا


جانے لکھے میں تیرے ہے ابرک یہ سحر کیا

ہر شخص دل و جاں سے خریدار ہو ��یا

اتباف ابرک

Posts created 786

Related Posts

Begin typing your search term above and press enter to search. Press ESC to cancel.

Back To Top