ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا


 ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
 ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا

آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا


کس سے پوچھوں ترے آقا کا پتہ اے رہوار

یہ علم وہ ہے نہ اب تک کسی شانے سے اٹھا


حلقۂ خواب کو ہی گرد گلو کس ڈالا

دست قاتل کا بھی احساں نہ دوانے سے اٹھا


پھر کوئی عکس شعاعوں سے نہ بننے پایا

کیسا مہتاب مرے آئنہ خانے سے اٹھا


کیا لکھا تھا سر محضر جسے پہچانتے ہی

پاس بیٹھا ہوا ہر دوست بہانے سے اٹھا

پروین شاکر

Posts created 786

Related Posts

Begin typing your search term above and press enter to search. Press ESC to cancel.

Back To Top