اگست 1952

 روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں

گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں

اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں

گوشے رہ چمن میں غزلخواں ہوئے تو ہیں

ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر

کچ کچھ سحر کے رنگ پرافشاں ہوئے تو ہیں

ان میں لہو جلا ہو ہمارا کہ جان و دل

محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں

ہاں کج کرو کلاہ کہ سب کچھ لٹا کے ہم

اب بے نیاز گردش دوراں ہوئے تو ہیں

اہل قفس کی صبح چمن میں کھلے گی آنکھ

باد صبا سے وعدہ و پیماں ہوئے تو ہیں

ہے دشت اب بھی دشت مگر خون پا سے فیضؔ

سیراب چند خار مغیلاں ہوئے تو ہیں

Posts created 786

Related Posts

Begin typing your search term above and press enter to search. Press ESC to cancel.

Back To Top