جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آج تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حرام
اب وہی دشمن دیں راحت جاں ٹھہری ہے
ہے خبر گرم کہ پھرتا ہے گریزاں ناصح
گفتگو آج سر کوئے بتاں ٹھہری ہے
ہے وہی عارض لیلیٰ وہی شیریں کا دہن
نگہ شوق گھڑی بھر کو جہاں ٹھہری ہے
وصل کی شب تھی تو کس درجہ سبک گزری تھی
ہجر کی شب ہے تو کیا سخت گراں ٹھہری ہے
بکھری اک بار تو ہاتھ آئی ہے کب موج شمیم
دل سے نکلی ہے تو کب لب پہ فغاں ٹھہری ہے
دست صیاد بھی عاجز ہے کف گلچیں بھی
بوئے گل ٹھہری نہ بلبل کی زباں ٹھہری ہے
آتے آتے یوں ہی دم بھر کو رکی ہوگی بہار
جاتے جاتے یوں ہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے
ہم نے جو طرز فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیضؔ گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے